Ad 468 X 60

22/06/2014

نهج البلاغه ٽيويهين حڪمت


تحریر : ساجد علی سبحانی

 

کُنْ سَمْحاً وَلَا تَکُنْ مُبَذِّراً،  وَکُنْ مُقَدِّراً  وَلَا تَکُنْ مُقَتِّراً

ترجمہ: سخاوت کرو لیکن فضول خرچی نہ کرو اور کفایت شعاری اختیار کرو لیکن بخیل نہ بنو۔

حضرت ؑ نے اپنے اس قول میں ہمیں دو مھم چیزوں کی طرف متوجہ کیا ہے ایک سخاوت کرو اسراف نہ کرو ۔ یے ایک مشکل امر ہے سخاوت اور اسراف میں جدا ئی ہونی چاہیے بہت انسان ہیں جو سخاوت کے نام پے اپنا مال لتاتے ہیں جب کہ وہ اسراف کر رہے ہوتے ہیں اس لئے حضرتؑ فرما رہے ہیں اے انسان خبردار سخاوت تو کرنا لیکن ایسا نہ ہو کہ سخاوت کے نام پے اسراف کرتے پھرنا۔ دوسری مھم چیز، کفایت شعاری کرو لیکن بخیل مت بنو۔ یہاں بھی اک مشکل امر ہے انسان اپنا مال بچاتا رہتا ہے اور کہتا ہے میں کیوں خرچ کروں کیوں اسراف کروں جب کے اسراف تو کجا وہ اپنی ضرورتوں کو بھی پورا نہیں کرتا اور ضرورت پر خرچ کرنا بھی اسراف کرنا سمجھ بیٹھتا ہے ایسے میں وہ سنبھال کے رکھا ہوا مال کسی نہ کسی دن اس کی جان کا وبال بن جاتا ہے اور یے انسان اس مال کو امیدوں بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔


سخاوت

سخاوت انبیاء ؑ کے اخلاق میں سے ہے ، ایمان کی بنیاد ہے اور نور یقین کی روشنی ہے۔ بہتر ہے ایسی چیز کو سخاوت کی طور پر دیا جائے جو انسان کو پسند ہو  ۔  پیامبر اکرم (ص) فرماتے ہیں : لا یصلح لدینکم الا السخاء و حسن الخلق تمہارے دین کے لئے سخاوت اور خوش اخلاقی کے بغیر کوئی صلاح او ر سازگاری نہیں ہے(جامع السعادات)

سخی انسان کی جزا

وہ انسان جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتا رہتا ہے اور متقی بھی ہے اس کے لئے پروردگار نے راہیں ہموار کردی ہیں ایسے مقامات جہاں انسان کے لئے مشکلات ہی مشکلات ہونگی خدا وہاں اس انسان کے لئے آسانیاں  پیدا کرے گا ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔فاما من اعطیٰ واتقیٰ۔ و صدق بالحسنیٰ۔ فسنیسرہ للیسریٰ۔

پھر جس نے مال عطا کیا اور تقویٰ اختیار کیا، اور نیکی کی تصدیق کی، تو اس کے لئے ہم آسانی کا انتظام کردیں گے (سورہ لیل آیات ۵ تا ۷)

فضول خرچی

اسلام میں سخاوت کرنے پے بہت زور دیا گیا ہے لیکن سخاوت اپنی حد میں رہنی چاہیے کہیں  سخاوت فضول خرچی میں تبدیل نہ ہو جائے ۔بہت سے انسان ایسے ہیں جو اپنا مال فضول کاموں میں خرچ کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم اللہ کی راہ میں سخاوت کر رہے ہیں جب کے وہ اسراف کر رہے ہوتے ہیں، دین اسلام اسراف کرنے والے کوخود ہی کے  مال میں تصرف کرنے سے روک دیتا ہے

اسلام میں فضول خرچی کی مذمت

اسلام ہر شعبہ زندگی میں سادگی، اعتدال اور میانہ روی کی تلقین کرتا ہے۔ فضول خرچی، عیش و عشرت اور نمود و نمائش سے نہ صرف منع کرتا ہے بلکہ اس کی شدید مذمت بھی کرتا ہے۔

ناپسندیدہ لوگ

فضول خرچی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

يَا بَنِي آدَمَ خُذُواْ زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّكُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّاللہ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ۔

’’اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اور ہر مسجد کے پاس  زینت ساتھ رکھو  اور کھاؤ  پیو مگر اسراف نہ کرو کہ خدااسراف کرنے والوں کودوست نہیں رکھتا ہے۔(سورہ  اعراف آیت ۳۱)

جاہلیت کے دور میں عربوں کا خیال تھا کہ جن کپڑوں میں گناہ کئے  ہیں ان میں طواف  نہیں ہو سکتا اور جن میں طواف ہوتا ہے وہ استعمال نہیں ہو سکتے اور اس بناپر برہنہ طواف کرتے تھے۔اسلام نے اس کی سختی سے ممانعت کی ۔پہلے وقت عبادت زینت کا حکم دیا پھر طیبات اور زینت حرام کرنے والوں کی تنبیہ کی تاکہ کسی کو اپنی طرف سے حلال و حرام تیار کرنے کا موقع نہ ملے اور پھر یہ بھی واضح کر دیاکہ طیبات صاحبان ایمان کا ہی حصہ ہے لھذا ان سے پرہیز نہیں کرنا چاہیے البتہ اسراف سے محفوظ رہنا چاہیے کہ پروردگار اسراف کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ہے(قرآن کریم ترجمہ و تفسیر علامہ ذیشان حیدر جوادی)

شیطان کے بھائی

فضول خرچی کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ سخت تنبیہ کی گئی ہے اور ایسے کرنے والوں کو شیطان کے بھائی کہا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا. إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُواْ إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا ترجمہ:’’اور قرابتداروں کو اورمسکین کو اور مسافرغربت زدہ کواس کا حق دے دواور خبردار اسراف سے کام نہ لینا ۔اسراف کرنے والے شیاطین کے بھائی بند ہیں اور  شیطان تو اپنے پروردگار کا بہت بڑا انکار کرنے والا ہے۔(سورہ اسراء آیت ۲۶، ۲۷)

اسلام ہر شعبۂ زندگی کی طرح مال خرچ کرنے میں بھی اعتدال اور میانہ روی کا درس دیتا ہے، چنانچہ فرمایا گیا

وَلاَ تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلاَ تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًاO

’’اور نہ اپنے  ہاتھوں کو  گردنوں سے بندھا ہوا قرار دو  (کہ کسی کو کچھ نہ دو) اور نہ بلکل پھیلا دو  (کہ سب کچھ ہی دے ڈالو) کہ آخر میں قابک ملامت اور خالی ہاتھ بیٹھے رہ جاؤ‘‘ (سورہ اسراء آیت ۲۹)

 

کفایت شعاری:

کفایت شعاری کی اہمیت کے لئے ہم ایک حدیث پیش کرتے ہیں وجاءَهُ رجل بِلَبَن وعسل لِيَشربُهُ، فقال صلى الله عليه وآله وسلّم: شرابان يُكتَفى بأحدهما عن صاحبه لا أَشربُهُ ولا اُحرّمُه ولكنّي أتواضَعُ للّه، فانّه مَن تواضع للّه رفعهُ اللّه ومن تَكبّر وضعَهُ اللّه ومَنِ اقْتصد في معيشته رزقَهُ اللّه ومن بَذّر حرمهُ اللّه ومن أكثر ذِكْر اللّهِ آجرهُ اللّه (تحف العقول ص ۴۶)

ترجمہ: ایک شخص پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں دودھ اور شہد پینے کے لئے لے کر آیا، پیغمبر (ص) نے فرمایا: یہ دو مشروب ہیں اور ایک کے استعمال سے دوسرے کی ضرورت ختم ہو سکتی ہے، میں اس مشروب کو نہیں پیوں گا اور حرام بھی قرار نہیں دوں گا کیوں کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں متواضع رہنا چاہتا ہوں اور جو شخص اللہ کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ اس کو رفعت و سرفرازی عطا کرتا ہے، اور جو تکبر کرتا ہے اللہ اسے پست و حقیر کر دیتا ہے، جو شخص کفایت شعاری سے کام لیتا ہے اللہ اس کو روزی دیتاہے اور جو شخص فضول خرچی کرتا ہے اللہ تعالی اسے محروم کر دیتا ہے، جو شخص خدا کی یاد میں ڈوبا رہتا ہے اللہ تعالی اسے اجر عطا کرتا ہے۔ چونکہ ممکن ہے کہ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہوں کہ معصومین علیھم السلام کا بعض نعمتیں استعمال نہ کرنا اس لئے ہے کہ وہ ان کو حرام سمجھتے ہیں، لہذا مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس بات کی وضاحت فرما دی کہ میں خود اگرچہ نہیں کھاتا لیکن اسے حرام قرار نہیں دے رہا ہوں۔ میں اس لئے نہیں کھاتا کہ تمام نعمتوں سے استفادہ اپنے لئے پسند نہیں کرتا۔ لفظ "رفعت" سے بھی مراد معنوی بلندی ہے البتہ ظاہری بلندی بھی مقصود ہو سکتی ہے مگر جو چیز مسلمہ ہے وہ معنوی بلندی ہے، یعنی اگر کوئی خدا کے لئے تواضع سے کام لے تو خدا اس کی روح اور اخلاق کو بلندی عطا کر دے گا، اس کی توفیق شامل حال ہو جائے گی۔ اسی طرح زوال و پستی کی طرف نزول سے بھی مراد معنوی تنزلی ہے۔ البتہ سماجی مقام و منزلت کا تنزل بھی مراد ہو سکتا ہے۔

بخیل

وہ انسان جو مال خرچ کرنے میں کنجوسی کرے حتیٰ کی جہاں خرچ کرنا ضروری ہو وہاں بھی خرچ کرنے سے گریز کرے،ایسے انسان کو خدا پسند نہیں کرتا ۔ پروردگار نے نعمتیں عطا کی ہیں مال بھی نعمت خدا ہے پھر اسے خرچ نہ کرکے ناشکر بننا  جائز نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔و اما من بخل واستغنیٰ ۔ و کذب بالحسنیٰ۔فسنیسرہ للعسریٰ۔وما یغنی عنہ مالہٓ اذا تردٰی۔اور وہ جس نے بخل کیا اور لاپروائی برتی۔ اور نیکی کو جھٹلایا ہے۔ اس کے لئے سختی کی راہ ہموار کردیں گے۔اور اس کا مال کچھ کام نہ آئے گا جب وہ ہلاک ہو جائے گا( سورہ لیل آیات ۸ تا ۱۱)

پوری زندگی مال کو جمع کرتے رہیں اور جب استعمال کا وقت آئے تو بخل کرتے رہیں پھر یے مال کس کام کا آخر اس مال کا ہمیں ہی تو حساب دینا ہے پھر یے بہتر نہیں کہ ہم اپنا مال خود استعمال کریں اور اس کا حساب بھی دیں لیکن اگر ہمارا مال کوئی اور استعمال کرے اور حساب ہمیں دینا ہو تو کتنا مشکل ہوگا اس کا اندازہ ہر انسان لگا سکتا ہے۔پس انسان کو چاہیے اپنے خالق کا نعمتوں کے بدلے شکریہ بجا لائے شکریہ ادا نہ کرنے سے اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا مگر ہم سے نعمتیں چھینی جا سکتی ہیں۔

 

هي تحرير ونڊيو   

  • Facebook
  • Twitter
  • Myspace
  • Google Buzz
  • Reddit
  • Stumnleupon
  • Delicious
  • Digg
  • Technorati

0 تبصرا:

© 2013 Designed & Translatedby Rasheed Samo