Ad 468 X 60

21/06/2014

نهج البلاغه اٺين حڪمت


تحریر: ساجد علی سبحانی

پروردگارِ عالم نے بنی نوع انسان کو بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے اور  فرماتا ہے کہ اگر کوئی میری  نعمتوں کو گننا چاہے تو گن نہیں  سکتا۔مال، دولت، اولاد، صحت، شھرت، فرصت، خود انسان میں بھی لا تعداد نعمتیں پنھاں ہیں ہاتھ، پاؤں ، آنکھیں ، کان، غرض انسان کا ہر عضو ایک نعمت خدا ہے ۔پس ان تمام تر نعمات دینے پر منعم کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔

آٹھویں حکمت

قال علی علیہ السلام

اِعْجَبُوا لِھٰذَا الاِنْسَانِ یَنْظُرُ بِشَحْمٍ ، وَ یَتَکَلَّمُ بِلَحْمٍ ، وَیَسْمَعُ بِعَظْمٍ ، وَیَتَنَفَّسُ مِنْ خَرْمٍ!!!

ترجمہ: انسان کی ساخت  پرتعجب کرو  کہ چربی کے ذریعہ دیکھتا ہے اور گوشت سے بولتا ہے اور ہڈی سے سنتا ہے  اور سوراخ سے سانس لیتا ہے۔

تشریح: حضرت امیر المومنین علیہ السلام  اپنے اس قول کے ذریعہ بنی نوع انسان  کو ایک مرتبہ پھر بیدار ہونے کی دعوت دے رہے ہیں اور قدر تِ خدا کی طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ شاید یے انسان اس طرح  شکر خالق کی طرف متوجہ ہو جائے ۔ وہ خالق جو کہ  فرما رہا ہے

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم والتین  والزیتون ۔ و طور سینین ۔ و ھذا البلد الامین۔ لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم:

  انجیر اور زیتون اور طور سینا  اور اس امن والے شھر ( مکہ) کی قسم ہے کہ بیشک ہم نے انسان کو اچھے انداز میں پیدا کیا ہے (سورہ التین آیات ۱ تا ۴)۔

حضرت ؑ نے پروردگار کی لا تعداد نعمتیں جنہیں کوئی شمار ہی نہیں کر سکتا میں سے چار عظیم (۴) نعمتوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔(۱) شحم: یعنی چربی۔ انسان  چربی کے ذریعہ دیکھتا ہے (۲) لحم :یعنی   گوشت ۔ انسان گوشت کے ذریعہ بولتا ہے (۳) عظم: یعنی ہڈی  انسان ہڈی کے ذریعہ سنتا ہے (۴) خرم :یعنی  سوراخ  انسان سوراخ کے ذریعہ سانس لیتا ہے۔ حضرت ؑ نے پروردگار کی نعمتوں میں سے آنکھ ، زبان ، کان اور ناک  کا ذکر کیا ہے۔  اگر دیکھا جائے تو خداوند کی ہر عطا کردہ چیز اک لا ذوال نعمت ہے مگر پروردگار کی نعمتوں میں سےیے اپنا مقام رکھتی ہیں.


آنکھ

آنکھ (Eye) جسم کا ایک ایسا عضو ہے جو کہ روشنی کا ادراک (احساس) کرسکتا ہے اور بصارت (بینائی) کا عمل انجام دیتا ہے۔

آنکھ کی شکل

 آنکھیں بادام کی  شکل میں بنائی گئی ہیں تاکہ آنکھوں میں جو دوا سلائی سے لگائی جائے اُس میں آسانی ہو اور میل آنسووٴں کے ذریعہ بہ آسانی خارج ہو سکے۔

اللہ جس نے یہ بے عیب عضو تخلیق کیا ہے، اسے ایک ناقابل تصور لطیف جزئیات سے بھی آراستہ کیا ہے اور دماغ کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ کسی چیز کو دیکھ سکے جہاں وہ ہے اسکی مکمل تفصیلات کے ساتھ۔

غیر معمولی پیچیدہ انسانی آنکھ بھی اس ذات پاک کے عظیم کاموں میں سے صرف ایک عمل ہے۔

کوئی انسانی صنعت یہ کارنامہ نہیں پیدا کرسکتی۔ یہ سمجھنے کے لیے مستقل تحقیق ہورہی ہے کہ کسطرح آنکھ یہ حیرت انگیز کام انجام دے سکتی ہے اور سائینسدان یہ معلوم کرنے کی جدوجہد میں ہیں کہ کس طر ح یہ ہمیں رنگین دنیا  کا نظارہ کراتی ہیں۔ بے شک نا تو  آنکھیں، جو کہ رقبہ میں کچھ سینٹی میٹر کے برابر ہیں اور نہ ہی دماغ کا وہ ملی میٹر سائیز کا حصہ جہاں تصویر بنتی ہے، یہ رنگین دنیا بنانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ یہ روح ہے جو باہر پائی جانے والی اشیاء کو دیکھتی ہے اور دماغ کے اندر اسکوواضح کرتی ہے۔ اللہ جو قادر مطلق ہے انسان کی پیدائش کے وقت اپنی روح پھونک کر ، اس نے لوگوں کو دیکھنے کے، ادارک کرنے اور محسوس کرنے کے قابل بنایا اور چیزوں کو انسان کے لیے مسخّر کردیا۔ تصوریر جو بنتی ہے اور حیرت انگیز آنکھیں جو اسکا ادراک کرتی ہیں اور ان گنت نظام جو اس تمام کام میں شامل ہے صرف اس لیئے ہے کہ اللہ نے ایسا چاہا۔

زبان

زبان بھی اپنے جگہ پر انسانی بدن کے بہت ہی حیرت انگیز اعضاء میں سے ہے اور اس کے ذمہ بہت ہی سخت ذمہ داریاں ہیں ، وہ غذا کو نگلنے میں مدد دینے کے علاوہ اس کو چبانے میں بھی اہم کام انجام دیتی ہے ، اور بار بار غذا کے لقمہ کودانتوں کی ہتھوڑی کے نیچے دھکیلتی رہتی ہے ، لیکن اس کام کو اتنے ماہرانہ انداز میں انجام دیتی ہے کہ اپنے آپ کو دانتوں کی ضربوں سے محفوظ رکھتی ہے ، حالانکہ ہمیشہ ان کے پاس اور ان سے چمٹی ہوئی رہتی ہے ۔

بعض اوقات اتفاقیہ طور پر کھانے کو چباتے وقت ہم اپنی زبان کو بھی چبالیتے ہیں تو ہماری چیخ نکل جاتی ہے اور ہم  یہ سمجھ جاتے ہیں کہ اگر زبان میں وہ مہارت نہ ہوتی تو ہم پر کتنی مصیبت آن پڑتی

ضمنی طور پر غذا کھانے کے بعد منھ کی فضا اور دانتوں کو پاک و صاف کرتی اور جھاڑدیتی ہے۔

اور ان سب  کا موں سے زیادہ  اہم بات کرنے کا  مسئلہ ،  جو زبان کی تیزی کے ساتھ منظم طور  پر پے در پے حرکات اور چھ سمتوں میں حرکت کرنے سے انجام پاتا ہے۔

قابل توجہ  بات  یہ ہے کہ خدا نے بات کرنے اور تکلم کے لئے ایک  ایسا  وسیلہ انسانوں کے اختیار میں دیاہے جو بہت ہی سہل اور آسان ، اور سب کی دسترس میں ہے ،  نہ کچھ  تھکان  ہوتی ہے  او رنہ ہی رنج و ملال حاصل ہوتا ہے، اور نہ ہی کچھ خرچ ہوتا ہے ۔ اور اس سے بھی زیادہ  عجیب  بات انسان میں گفتگو کرنے کی استعداد  کا مسئلہ ہے ،  جو انسان کی روح میں ودیعت کر دیا گیا ہے اور انسان اپنے طرح طرح کے حد سے زیادہ مقاصد کو بیان کرنے کے لئے بے حد مختلف صورتوں میں زیادہ سے زیادہ جملہ بند یاں کرسکتا ہے ۔

اور اس سے بھی زیادہ اہم ، مختلف زبانوں کی وضع کی استعداد ہے ، اور ان ہزاروں  زبانوں کے مطالعہ سے جو دنیا میں موجود ہیں ، اس کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے ۔

 

 

کان

کان (ear) کوعموماً علم طب وحکمت میں عربی سےاذن (جمع: اذان) بھی کہاجاتاہے یہ انسانوں اور حیوانوں کےجسم میں پایاجانے والا ایک حسی عضو ہےجوکہ سننے کا کام کرتاہے یعنی یہ آواز کے لئے ایک وصولہ (receiver) کےطورپرکام کرتاہے اورآوازکےارتعاش کودماغ تک پہنچانے کا ذریعہ بن کرسماعت کا احساس اجاگرکرتاہے۔ آوازکےلئےحسی عضو کےطورپرکام کرنےکےساتھ ساتھ، کان توازن اوروضع (posture) برقراررکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتاہے  علم تشریح میں کان کوسماعت کہ اعضاء میں شمار کیا جاتا ہے ۔ یعنی سادہ الفاظ میں یوں بھی کہا جاسکتاہے کہ کان ایک حسی عضو ہے جوآوازکھوجتاہے اور یہ نہ صرف آوازکوسنتاہےبلکہ جسم کومتوازن اورحرکت صحیح حالت میں رکھنے میں بھی بڑاکام سرانجام دیتاہے۔

ناک

ناک سانس لینے اور سونگھنے  کا عضو ہے ۔ زندہ رہنے کے لئے  یہ عضو سب سے اہم ہے ۔

ناک کی نازک تخلیق

خداوند نے ناک کو دونوں آنکھوں کے درمیان رکھا ہے اس کی علۃ  امام صادق ؑ  بیان فرماتے ہیں کہ ناک  دونوں آنکھوں کے درمیان اس لئے بنائی گئی ہے تاکہ روشنی کو برابر دو حصوں میں تقسیم کردے تاکہ معتدل روشنی آنکھوں تک پہنچے۔اوراس سےبھی زیادہ اہم بات کہ خداوند نے ناک کے سوراخ نیچے کی طرف بنائے  ہیں اِسلئے تاکہ مغز  کا میل وغیرہ  اس  سے خارج ہو اور خوشبو بذریعہ ہوا دماغ  تک  جائے  اور لقمہ منھ  میں رکھتے  وقت فورًامعلوم ہو جائے کہ غذا کثیف ہے یا لطیف۔

هي تحرير ونڊيو   

  • Facebook
  • Twitter
  • Myspace
  • Google Buzz
  • Reddit
  • Stumnleupon
  • Delicious
  • Digg
  • Technorati

0 تبصرا:

© 2013 Designed & Translatedby Rasheed Samo