Ad 468 X 60

24/06/2014

نهج البلاغه اکيسوين حکمت


تحریر : ساجد علی سبحانی


قُرِنَتِ الْھَیْبَۃُ بِالْخَیْبَۃِ، وَالْحَیَاءُ بِالْحِرْمَانِ، وَالْفُرْصَۃُ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ، فَانْتَھِزُوا فُرَصَ الْخَیْرِ

 ترجمہ: مرعوبیت (خوف)  کو  ناکامی سے اور حیاء (شرم) کو  محرومی  سے ملا دیا گیا ہے ۔ اور فرصت کےمواقع بادلوں کی طرح  گزر جاتے ہیں لہٰذا نیکیوں کی فرصت  کو غنیمت جانو۔

تشریح: حضرت ؑ  کا  یہ ارشاد تین جملوں پر مشتمل ہے :


پہلا جملا : خوف کا نتیجہ ناکامی ہے

جو بلا وجہ خوفزدہ ہوجائے گا وہ مقصد کو حاصل نہیں کر سکتا ۔عوام میں ایک چیز خواہ کتنی ہی معیوب خیال کی جائے اور تحقیر آمیز نظر وں سے دیکھی جائے اگر اس میں کوئی واقعی عیب نہیں ہے تو اس سے شرمانا  سراسر نادانی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے اکثر ان چیز وں سے محروم ہونا پڑتا ہے  جو دنیا و آخرت کی کامیابیوں اور کامرانیوں  کا باعث ہوتی ہیں جیسے کوئی شخص اس خیال سے کہ لو گ اسے جاہل تصور کریں گے کسی اہم اور ضرور ی بات کے دریافت کرنے میں عار محسوس کرے تو  یہ بے موقع و بے محل خودداری اس کے لیئے علم ودانش سے محرومی کا سبب بن جائے گی اس لیئے کوئی ہوشمند انسان سیکھنے اور دریافت کرنے میں عار نہیں محسوس کرے گا چنانچہ ایک سن رسیدہ شخص سے کہ جو بڑھاپے کے باوجود تحصیل علم کرتا تھا کہا گیا کہ ماتستحی ان تتعلم علی الکبر ؟ تمہیں بڑھاپے میں پڑھتے ہوئے شرم نہیں آتی ؟ اس نے جواب میں کہا کہ انا لا استحی من الجھل علی الکبر فکیف استحی من التعلم علی الکبر۔ جب مجھے بڑھاپے میں جہالت سے شرم نہیں آئی تو اس بڑھاپے میں پڑھنے سے شرم کیسے آسکتی ہے ۔


کونسے خوف میں ناکامی ہے؟

 ایک خوف ایسا ہے جس کا نتیجہ ناکامی نہیں ہے  بلکہ کامیابی ہے وہ خوف ہے  اللہ سے ڈرنا ۔اور یے ربانیت کا مقام ہے اور قول و فعل کے ذریعہ خوف یے حسن اور جمال ہے۔ اور یے علماء اور متقین کی صفات میں سےہے۔ ہر خوف  جو قول اور فعل کے علاوہ ہو  وہ فقط  بذدلی اور خواری ہے۔ حضرت ؑ نے جس خوف کو ناکامی سے تعبیر کیا ہے وہ خوفِ خدا ہرگز نہیں ہے۔  البتہ جن چیزوں میں واقعی برائی مفسد ہو  ان کے ارتکاب سے شرم محسوس کرنا انسانیت اور شرافت کا جوہر ہے جیسے وہ اعمال ناشائستہ کہ جو شریعت  وعقل اور مذہب و اخلاق کی رو سے مذموم ہیں ۔

دوسرا جملا: حیاء  کا نتیجہ محرومی ہے:

حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم  کا ارشاد ہے: شرم و حیاء  کی دو قسمیں ہیں: عاقلانہ حیا ء اور حماقت آمیز حیا ء  عاقلانہ حیا ءعلم ہے، حماقت آمیز حیا ء جہالت ہے۔ (تحف العقول ص ۴۵)

حیاء کی پہلی قسم حسن  اور دوسر ی قسم قبیح ہے ۔

حضرت ؑ نے اپنے اس قول میں دونوں قسموں کی حیاء کو محرومی سے تعبیر نہیں کیا ہے بلکہ دوسری قسم کی حیاء کو ناکامی اور محرومی کہا ہے  ۔

عاقلانہ حیا ء  و شرم: یہ ہے کہ انسان عقل و خرد کی بنیاد پر شرم و حیاء  کا احساس کرے۔ مثلا گناہ کرنے سے شرم کرے اسی طرح ایسے لوگوں کے سامنے حیا ء کہ جن کا احترام لازم ہے علم کی حیاء ہےیعنی ایسے مواقع پر روش اور انداز عالمانہ ہو۔ جہالت کی حیا ء: یہ ہے کہ انسان کچھ پوچھنے سیکھنے یا  عبادت وغیرہ میں شرم کرے، جیسے بعض افراد ماحول سے متاثر ہوکر احساس کمتری کے تحت نماز پڑھنے میں شرم کرتے ہیں  یہ جاہلانہ حیاء ہےجو صحیح نہیں ہے۔ جو بلا وجہ شرماتا رہے گا وہ ہمیشہ محروم رہے گا۔ اگر انسان ہر موقع پے شرماتا ہی رہتا تو نسل انسانی وجود میں نہ آتی۔

تیسرا جملا: اور فرصت کےمواقع بادلوں کی طرح  گزر جاتے ہیں لہٰذا نیکیوں کی فرصت  کو غنیمت جانو۔

ہر انسان کی زندگی کو تین حصوں (اوقات) میں تقسیم کیا جا سکتا ہے

(۱) وہ  وقت جو ہاتھوں سے نکل چکا ہے اور کبھی بھی لوٹ کر نہیں آئے گااور یہ وہی ماضی کاوقت ہے جو ہمارے اختیار میں آیا تھا  چاہے ہم نے اس سے فائدہ اٹھایا یا نہیں بہرحال اب  ہمارے ہاتھوں سے جا چکا ہے۔

اپنے ماضی سے عبرت حاصل کریں

دنیا کے اتار ، چڑھاؤ اور سرد و گرم سے عبرت لینا بزرگ شخصیات کی صفات میں سے ہے وہ دوسروں کے حالاتِ زندگی کی بر رسی اور اپنے گذشتہ امور پر دقت سے بہت بڑا سبق لیتے ہیں اور اسی کی بنا پر وہ اپنے آیندہ کو بناتے ہیں۔ اپنے گزرے ہوئے وقت اور فراغت کے گزرے ہوئے لمحات سے عبرت لینا بقیہ زندگی کی قیمت و ارزش کو روشن کرتا ہے اور انسان کو متنبہ کرتا ہے کہ اپنے مستقبل کو بھی ماضی کی طرح تباہ  نہ کرو اور اپنی باقی ماندہ زندگی سے ایسا نتیجہ حاصل کرو کہ گزرے ہوئے وقت کا جبران ہو سکے حضرت امیرالمومنین ؑ فرماتے ہیں:  اگر اپنے ماضی سے عبرت لو کہ جسے تم نے ضائع کردیا تھا تو تم اپنی بقیہ زندگی کو محفوظ کر سکتے ہو (شرح غرر الحکم )

دوسروں کے ماضی سے سبق سیکھیں

تاریخ  کا مطالعہ کریں اور مکتب تشیع کی بزرگ شخصیات کے بارے میں بر رسی کریں ان کی فعالیت و تجربات اور ان کی فردی و اجتماعی کوششوں سے استفادہ کریں۔ دوسروں کے تجربات سے استفادہ کرنے کے فوائد میں سے ایک وقت سے فائدہ اور فراغت سے استفادہ کرنا ہے دوسرے جس راستے پے چلے ، دوسروں نے جو برنامے انجام دئے اور انہوں نے جو نتیجہ حاصل کیا ہمیں ان سے تجربہ لینا چاہیے۔گزشتگان کی راہ روش اور ان کے پسندیدہ کاموں کو بہتر اور جلد انجام دیں اور انہوں نے جس غلط راستے اور کاموں کا مشاہدہ کیا انہیں ترک کریں۔ اپنی قیمتی زندگی کو غلط کاموں میں تجربہ کر کے ضائع نہ کریں کہ جسے دوسروں نے انجام دیا ہو۔

(۲) وہ وقت ہے جواس وقت ( زمانۂ حال )میں ہمیں میسّر ہےجس میں ہم نے دیکھنا ہے کہ ہماری ذمہ داری کیا ہے اور ہم نے کیا کرنا ہے؟

اپنا وقت ضائع نہ کریں

انسان حدود و قیود میں محدود و مقید ہے ان میں سے ایک قید زمان ہے  ہمارے تمام بزرگان نے محدود زمان میں پیشرفت و ترقی کی اور اعلیٰ اہداف کو حاصل کیا ہے۔ اگر ہم نے گزشتہ زندگی ، ان کے مطابق نہیں گزاری تو باقی ماندہ مہلت کو کافی جان کر اس کی اہمیت و ارزش کو سمجھیں۔ ہم زندگی کے لمحات کو گزار رہے ہیں اور آہستہ آہستہ مہلت کو ہاتھ سے کھو رہے ہیں۔ عقلمند اور ذہین وہ ہے جو فراغت کو غنیمت شمار کر کے اس سے بہترین طریقے سے استفادہ کرے۔

حضرت امیرالمومنین ؑفرماتے ہیں: اگر عقل سالم ہے ہر شخص موجود مہلت کو غنیمت شمار کرتا ہے(شرح غررالحکم)

ہمیں اس امر کی طرف متوجہ رہنا چاہیے کہ وقت ہماری زندگی کا اہم ترین سرمایہ ہے عقل اس حقیقت کی شاہد ہے اسی وجہ سے ہر انسان کو مہلت اور فرصت کو غنیمت سمجھ کر اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔جس چیز کا کوئی عوض نہیں ہے وہ انسان کی زندگی ہے لہذا اسے غنیمت جانو۔

بیکاری کا نتیجہ

بیکار شخص کا کوئی ہدف اور مقصد نہیں ہوتا کہ جس کی حصول کی وہ کوشش و ہمت کرے۔ لہذا وہ بیکار بیٹھا رہتا ہے وہ اپنا قیمتی وقت خیالات ، توہمات یا بے فائدہ و حرام گفتگو میں گزارتا ہے اور اپنے دل کو شیاطین کی آماج گاہ قرار دیتا ہے۔ حضرت امیرالمومنینؑ اپنے کلمات قصار میں فرماتے ہیں: مومن کا وقت ہمیشہ مشغول ہے یعنی مومن ہمیشہ مصروف رہتا ہے۔کیونکہ وہ یا ضروریاتِ زندگی کو مہیا کرنے کے لئے مادی کاموں میں مشغول ہوتا ہے یا پھر خداوند کریم کی عبادت و ذکر سے اپنی آخرت کو آباد کرتا ہے۔ اتنی مصروف زندگی کے باعث اسے نا شائستہ اور زشت اعمال کو انجام دینے کی فرصت نہیں ہوتی۔

اپنا وقت دوسروں کے شخصی اہداف کے لئے ضائع نہ کریں

بہت سے لوگ اپنی زندگی کے با ارزش لمحات کو مختلف کاموں اور فعالیت میں گزارتے ہیں سستی و کاہلی سے گریز کرتے ہیں اور کوشش و تلاش کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں لیکن اپنی سرمایہ زندگی سے نہ تو کوئی سود حاصل ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی زحمات کا کوئی ثمر و فائدہ ہوتا ہے۔ اس بارے میں امیرالمومنین ؑ فرماتے ہیں اپنی زندگی کو دوسروں کی منفعت میں گنوادیتے ہیں (نہج البلاغہ کلمات قصار۲۶۱)

وہ بہت سی زحمات ، سختیاں اور تلخیاں برداشت کرتے ہیں مگر ان کی کوششوں کا کوئی ماحصل نہیں ہوتا۔

 وہ دوسروں کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں کائنات میں بہت سے ایسے مظلومین ہیں کہ جو اپنے اوپر ہونے والے ظلم و ستم سے بھی آگاہ نہیں ہیں۔ حضرت علی ؑ جو کہ مظلومین کے دادرس اور رنجیدہ لوگوں کی پناہ گاہ ہیں ، اپنے مختصر سے کلام میں تمام لوگوں کو آگاہ کر رہے ہیں کہ اپنی زندگی کو دوسروں کی منفعت میں ضائع نہ کریں۔

(۳) جبکہ تیسرا قابل تصوّر وقت وہ ہے جو ابھی آیا نہیں ہے لیکن کسی کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ اسے وہ مستقبل کی فرصت نصیب ہو گی یا نہیں لہٰذا ایک عقلمند انسان ہر گز اپنے سارے اہم امور ایسے وقت پر نہیں چھوڑ سکتا بلکہ کوشش کرتا ہے کہ زیادہ سےزیادہ موجودہ وقت سے استفادہ کرلےاور ہاتھوں میں موجود اس فرصت کوضائع نہیں ہونے دے۔

فرصت سے استفادہ کریں

عالی اہداف تک پہنچنے والی بزرگ شخصیات کہ جنہوں نے اپنی پوری زندگی میں بہت سی کامیابیاں حاصل کیں۔ انہوں نے اپنی زندگی سے استفادہ کیا اور وقت کو غنیمت سمجھا انہوں نے وقت کو ضائع کرنے سے گریز کیا اور فرصت و فراغت سے بہتریں طریقے سے استفادہ کیا۔میدان عمل میں فرصت کو سعادت میں گزاریں ، فراغت بہت جلدی گزرجاتی ہے لیکن فرصت کے ایام ضائع کرنے کے بعد پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں۔

آخری سانس تک زندگی سے استفادہ کریں

ہمیں آخری سانس اور آخری لحظہ تک اپنے وظیفہ کو انجام دینے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنی زندگی کےلحظات کو ایسے امور میں ضائع نہ کرو کہ جن میں خدا کی رضایت شامل نہ ہو۔ حضرت امیر المومنین ؑ فرماتے ہیں : تمہاری سانسیں تمہاری زندگی کے اجزاء ہیں ۔ لہذا انہیں ضائع نہ کریں مگر ایسی عبادت میں کہ جو تمہارے لئے بیشتر تقرب کا باعث ہو (غررالحکم) پس ہم پر واجب ہے کہ اس فرصت کو صحیح معنوں میں غنیمت جانیں اور اپنی باقیماندہ زندگی کو ابھی سے ایسا بنانا شروع کر دیں جیسا ہمارے معصوم امام ؑ چاہتے ہیں اور اسی طرح ہم اپنے زمانے کے امام علیہ السلام کو بھی راضی و خوشنود کر سکتے ہیں لیکن خدانخواستہ اگر ہم نے موجودہ فرصت سے فائدہ نہیں اٹھایا تو یہ فرصت بادلوں کی طرح آناً فاناً گزر جائےگی اورپھر ہمارے ہاتھ نہیں آئے گے  ۔آخر میں اللہ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں توفیق دے ہم فرصت کو صحیح معنیٰ میں استعمال کر سکیں۔

هي تحرير ونڊيو   

  • Facebook
  • Twitter
  • Myspace
  • Google Buzz
  • Reddit
  • Stumnleupon
  • Delicious
  • Digg
  • Technorati

0 تبصرا:

© 2013 Designed & Translatedby Rasheed Samo